ہاتھی ایک تلاب پر گیا اپنی سونڈ میں پانی بھر کر لایا اور درخت کے نیچے آکر اس کی جڑوں میں ڈال دیا یوں جڑوں کے قریب کی مٹی نرم ہوگئی پھر دوسری بار بھی اسی طرح پانی لایا پھر درخت کو جھٹکے دئیے۔ حمزہ درخت پر اللہ سے توبہ کررہا تھا
ایک گاؤں میں لکڑہارا رہتا تھا‘ وہ روزانہ جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر لاتا اور بیچ کر اپنا اور گھروالوں کا پیٹ پالتا اس کا ایک ہی بیٹا تھا جس کا نام ’’حمزہ‘‘ تھا وہ بہت شریر تھا جب اس کی عمر 6 سال ہوئی تو لکڑ ہارے نے اسے سکول میں داخل کروادیا لکڑہارا خود تو تعلیم حاصل نہیں کرسکا تھا لیکن اس کی خواہش تھی کہ اس کا بیٹا تعلیم حاصل کرکے ایک اچھا آدمی بن سکے۔ اس کا بیٹا حمزہ تھا تو ذہین مگر انتہائی لاپرواہ اور کام چور تھا۔ وہ روزانہ سکول جاتا لیکن پڑھائی میں کوئی دلچسپی نہ لیتا اور راستے میں دائیں بائیں دیکھتا کبھی کس جگہ رک جاتا اور روزانہ سکول میں دیر سے پہنچتا۔ لیٹ پہنچنے پر کئی مرتبہ اسے سزا بھی مل چکی تھی اور اکثر اپنا ہوم ورک بھی مکمل نہ کرتا۔ اس کا باپ اسے بہت سمجھاتا کہ وہ دل لگا کر پڑھے ورنہ وہ بھی ساری زندگی لکڑیاں ہی کاٹتا رہے گا۔حمزہ پر ان باتوں کا کوئی اثر نہ ہوتا آخرکار وہ پانچویں کے امتحان میں فیل ہوگیا تاہم اس کے باپ نے اس کو ایک اور موقع دیا کہ اس بار وہ خوب دل لگا کر پڑھے تاکہ اگلی بار کامیاب ہوجائے لیکن وہ اگلے سال بھی ناکام رہا اب اس کے باپ نے اس کو سکول سے اٹھالیا اور پنے ساتھ کام پرلگادیا۔ ایک دن باپ نے اس کو کہا کہ آج میری طبیعت خراب ہے لہٰذا آپ کو جنگل میں لکڑیوں کیلئے اکیلے جانا ہوگا لیکن دھیان سے جانا اور جنگل میں بہت آگے نہ جانا چنانچہ حمزہ لکڑیاں لانے جنگل میں چلا گیا اس نے باپ کی نصیحت پر کوئی عمل نہ کیا اور جنگل میں بہت آگے چلا گیا وہ جنگل کے اس حصے میں چلا گیا جہاں خطرناک جانور تھے‘ اچانک اسے ہاتھیوں کے شور کی آواز آئی‘ اس نے جونہی اپنے بائیں طرف دیکھا دو ہاتھی اس کی طرف دوڑے آرہے تھے‘ وہ دوڑ کر ایک درخت پر چڑھ گیا لیکن ہاتھی اس کو دیکھ چکے تھے اس لیے تھوڑی ہی دیر میں ہاتھی اس درخت کے نیچے پہنچ گئے اور اس درخت کو اپنی سونڈ سے جھٹکے دینے لگ گئے آخر درخت ہلنے لگا اور اس کی جڑوں میں دراڑیں پڑنے لگیں۔ ایک ہاتھی دوسرے ہاتھی کے نزدیک ہوگیا جیسے اس کے کان میں کچھ کہہ رہا ہو۔ (جانور بھی باتیں کرتے ہیں لیکن ہم ان کی بولی نہیں سمجھ سکتے) بہرحال ایک ہاتھی کچھ کہہ کر جنگل کی طرف چلا گیا‘ ہاتھی ایک تلاب پر گیا اپنی سونڈ میں پانی بھر کر لایا اور درخت کے نیچے آکر اس کی جڑوں میں ڈال دیا یوں جڑوں کے قریب کی مٹی نرم ہوگئی پھر دوسری بار بھی اسی طرح پانی لایا پھر درخت کو جھٹکے دئیے۔ حمزہ درخت پر اللہ سے توبہ کررہا تھا کہ اس نے اپنے باپ کی بات پر عمل نہیں کیا‘ نہ ہی صحیح طرح تعلیم حاصل کرسکا اور نہ ہی کام کرسکا۔ اچانک اللہ نے ایک بات حمزہ کے دل میں ڈالی کہ جب ہاتھی درخت ہلا کر اوپر حمزہ کی طرف دیکھتا تو سر کا دائیں حصہ نیچے ہوتا ہے اس نے اندازہ لگایا کہ نیچے والی ہاتھی کو دائیں طرف سے نظر نہیں آتا چنانچہ وہ آہستہ آہستہ دائیں سائیڈ سے اتر کر نیچے آگیا اور پھرتی دکھا کر وہاں سے بھاگ نکلا۔ بعد میں حمزہ نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا کہ اس نے جان بچالی۔ اس نے دل میں عہد کیا کہ اب اپنے والد کے حکم پر عمل کرے گا اور خوب دل لگا کر علم حاصل کرے گا۔
پیارے بچو! پان اور کینسر کے نقصانات جانیے
بچو! آج کل نشہ کتنا عام ہوچکا ہے‘ کہا جاتا ہے کہ گلے کے کینسر کے مریضوں میں ساٹھ سے ستر فیصد تعداد پان کھانے والوں کی ہے‘ پان‘ گٹکا‘ خوشبودار سونف سپاری‘ سگریٹ وغیرہ کتنی عام ہوچکی ہے۔ جب آدمی باہر نکلتا ہے تو پان سے منہ لال کئے ہوئے لوگوں کو دیکھ کر دل جلتا ہے اور جب کوئی بتاتا ہے کہ پان یا سگریٹ وغیرہ کی عادت ترک کردی تو دل خوش ہوجاتا ہے۔ بچو! آپ کے گھر میں کوئی پان‘سگریٹ یا چھالیا کھاتا ہے تو اسے بتائیں کہ یہ چیزیں کھانے والوں کا منہ پہلے متاثر ہوتا ہے‘ ایک دن ایک قریبی آدمی سے ملاقات ہوئی جو روزانہ منہ کو لال کئے ہوئے ہوتا تھا اس سے میں نے منہ کھولنے کو کہا تو مشکل سے تھوڑا سا کھول پایا‘ زبان باہر نکالنے کیلئے کہا تو صحیح طرح سے نہ نکال سکا‘ پوچھنے پر بتایا کہ منہ میں چھالا ہے۔ ہر پان کھانے والا اپنے منہ کا اسی طرح امتحان لے۔ پان کا زیادہ استعمال منہ کے نرم گوشت کو سخت کردیتا ہے۔ جس کے سبب منہ کو کھولنا اور زبان باہر نکالنا دشوار ہوجاتا ہے۔ نیز چونے کا استعمال منہ کی جلد کو پھاڑ دیتا ہے اور چھالے بنا دیتا ہے اور یہی منہ کا السر ہے ایسے شخص کو چھالیہ‘ پان‘ گٹکا وغیرہ سےفوراً جان چھڑالینا چاہیے ورنہ یہی السر آگے چل کر کینسر کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔
بچو! پان یا گٹکا بکثرت کھانے والے کی پہلے آواز میں خرابی اور بعد میں گلا خراب اور بیمار ہوجاتا ہے اگر وہ اس کو تکلیف تصور کرکے پان کھانے سے باز نہیں اتا تو بڑھتےبڑھتے گلے کے کینسر تک نوبت آجاتی ہے۔ بچو ذرا غور کیجئے! جو چونا منہ کے گوشت کو کاٹ سکتا ہے وہ پیٹ کے اندر جاکر نہ جانے کیا تباہی مچاتا ہوگا جو آنتوں اور معدے میں بھی بعض اوقات کٹ لگا دیتا ہے فوری طور پر اس کا پتہ نہیں چلتا جب السر زیادہ بڑھ جاتا ہے تب معلوم ہوتا ہے کہ یہی السر کینسر کا بھیانک روپ دھار سکتا ہے۔ پیارے بچو! آپ نے درج بالامضمون پڑھا‘ یقیناً آپ پان‘ گٹکا‘ چھالیا اور سپاری کے نقصانات سے آگاہ ہوچکے ہوں گے۔ اگر آپ میں سے کوئی سپاری وغیرہ کھاتا ہے تو آج سے ہی کھانا بند کردیں اور اگر آپ کے گھر میں باپ‘ بھائی‘ چاچو یا کوئی اس طرح کی کوئی چیز کھاتا ہے تو انہیں پیار سے اس کے نقصانات بتائیں تاکہ آپ کے پیاروں کی صحت محفوظ رہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں